Thursday, October 15, 2009

AFG

افغان خواتین کے حالاتِ زندگی پر ایک نظر


آبادی کا آدھا حصہ ہونے کے باوجود، اپنے حقوق حاصل کرنے کے سلسلہ میں خواتین ابھی بھی کمزور ترین مخلوق ہیں۔ مسلسل جدوجہد اور مصائب کا سامنا کرنے کے باوجود وہ سیاست اور معاشرے میں ابھی تک کوئی نمایاں کامیابیاں حاصل نہیں کر سکی ہیں۔ آج کے افغانستان میں خواتین ابھی بھی اپنے بہت سے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں اور وہ ہمیشہ سے کمزور طبقہ ہیں۔

ہر کوئی اس بات سے آگاہ ہے کہ افغان خواتین نے زندگی کے مختلف شعبوں میں نمایاں صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ مثال کے طور پر روس کے قبضہ کے خلاف جنگ میں، وہ اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ موت تک لڑئیں، مگر بدقسمتی سے تاریخ دانوں اور اس دور کے مصنفین نے اس سلسلہ میں افغان خواتین کے بہادرانہ اعمال اور قربانیوں کو نظر انداز کرنے کا انتخاب کیا ہے۔

یہ بات افسوس ناک ہے مگر ہماری تاریخ میں بار بار، سیاسی طاقتوں اور خواتین کے حقوق کے محافظوں نے عورتوں سے صرف کاغذ پر یا ذرائع ابلاغ میں ہی "ہمدردی" کی ہے اور اُن پر مگرمچھ کے آنسو بہانے کے علاوہ بہت کم کام ہی کیا ہے۔ ہم نے ابھی تک اُن کے حقوق کو مان لینے کے مطالبے کی حمایت میں کوئی عملی اقدامات نہیں دیکھے ہیں، جو کہ آج کل بالکل بھی اچھے نہیں ہیں۔

وہ خواتین جو شہری علاقوں میں رہتی ہیں وہ عام طور پر تعلیم یافتہ خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ آزادی سے گھوم پھر سکتی ہیں، تعلیم حاصل کر سکتی ہیں اور اپنے مستقبل کا خود انتخاب کر سکتی ہیں۔ بدقسمتی سے، دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ہو سکتا ہے کہ انہیں اپنے شوہروں کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جانے کی اجازت بھی نہ دی جائے۔ اگر ایک غریب حاملہ عورت گر کر بے ہوش ہو جائے، تو ہو سکتا ہے کہ اُس کا شوہر یا اُس کا خاندان اُسے کلینک لے جانے سے ہی انکار کر دیں۔ اس کے علاوہ، بہت سے شہری اور دیہی گھر ایسے ہیں جہاں شوہر اور اُن کی بیویاں ایک میز پر بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتے، یا شوہر پہلے کھانا کھاتے ہیں اور اُن کی بیویاں بعد میں کھانا کھاتی ہیں۔

اس بات کو سامنے رکھنا چاہیے کہ نہ تو اسلام اور نہ ہی ہمارے ملک کی اعلیٰ ثقافت اس طرح کے رویے کی اجازت دیتی ہے۔ جو لوگ اس طرح کا طریقہ کار اختیار کیے ہوئے ہیں انہیں اس بات کی اطلاع دینی چاہیے کہ اُن کا عمل زندگی گزارنے کا انسانی یا اسلامی طریقہ نہیں ہے۔ وہ کن روایات کو نبھا رہے ہیں؟

افغانستان کے بہت سے گاوں اور ڈسٹرکٹس ایسی ہیں جہاں خواتین کے خلاف بہت سے تعصبات پائے جاتے ہیں، جیسے کہ ایک لڑکی اس زمین پر تعلیم حاصل نہیں کر سکتی، مناسب کپڑے نہیں پہن سکتی یا اپنے مستقبل کے شوہر کا آزادانہ اور پر امن طریقے سے اپنی خواہشات کے مطابق انتخاب نہیں کرسکتی۔ آئین کی طرف سے مردوں اور عورتوں کو مساوی حقوق دیے جانے کے باوجود یہ صورتِ حال موجود ہے۔

اسلام نہایت سختی سے مردوں اور عورتوں دونوں کے مذہبی حقوق کا دفاع کرتا ہے۔ اس نے مکمل طور پر دونوں کے حقوق بیان کر دیے ہیں۔ اس کے علاوہ، اسلام نے اپنی مقدس کتاب میں خواتین کی آزادی کے بارے میں بہت سے اہم اصول بیان کر دیے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی حدیثیں ایسی ہیں، جن میں سے ہم اپنی تشریحات کے مطابق اپنا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔

خدا کا شکر ہے کہ اب ہمارے پیارے ملک میں لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے کافی تعلیمی بنیاد موجود ہے۔ دور دراز کے علاقوں میں لڑکیوں کے لیے سکول بنانے کے لیے بہت سے اقدامات کیے گئے ہیں جن سے لڑکیوں کو موقعہ ملے گا کہ وہ لڑکوں کے شانہ بشانہ تعلیم حاصل کر کے اپنے ملک کی مختلف شعبوں میں خدمت کر سکیں۔ وہ خواتین جو اپنی تعلیم کو جاری رکھنا چاہیں یا عملی کام کواپنی زندگیوں میں شامل کرنا چاہیں وہ ایسا کر سکیں۔ اللہ ہم سب کو کامیابی عطا کرے